مجھے بھی محبت ہوئی تھی
دل اٹک کر رہ گیا اک شخص
اور وہ شخص بھی ہمارا نہ ہوا
یعنی محبت ہم نے اس سے خوب کی
مگر وہ کمبخت مجبور نکلا
میں نے زندگی کو ہر اس رح سے دیکھا شاید جن کو دیکھنے کیلئے یہ زندگی کم پڑ جاتی ہے ۔ اور ہر واقعہ ایک نیا واقعہ اور ایک نئی دل دہلا دینے والی داستان چھوڑ گیامیرے دل پر۔
عمیرا کو زندگی کی ہر خوشی اور ہر چیز میسر تھی
۔اس کا ہنستا ہوا چہرا کئی گہرے راز اور دل کے درد چھپائے بیٹھا تھا کوئی جانتا بھی نہیں ہو گا کہ ایک بظاہر خوش نظر آنے والی لڑکی اس قدر پریشان اور دوکھی ہو گی ۔ عمیرا اپنی پڑھائی میں کافی لائک تھی اور اللّٰہ تعالٰی کی زات نے اسے بھرپور ذاہنت سے نوازا تھا۔ وہ نارمل قد کی ایک خوبصورت حسیں لڑکی اور اس کا مدھمی لہجہ کہ جس سے بات کرئے اس کے دل میں گھر لے ۔ عمیرا کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا اس لیے وہ ایک سادہ لباس اور ہر لہذا سے سادگی پسند تھی ۔ میٹرک میں اچھے مارکس لینے کہ بعد اس کا داخلہ شہر کے سب سے بڑا کالج میں کروایا گیا جدھر ہر طرح کی لڑکیاں اور لڑکے آتے تھے ۔مگر عمیرا اپنی پڑھائی میں ہی مگن رہتی تھی اور ہر وقت حجاب میں رہتی کہ کوئی نامحرم اسے نہ دیکھے ۔ وہیں اس کا ایک کلاس کا لڑکا جس کا نام احمد تھا انتہائی بدتمیز لڑکا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی دی گئی دولت کی وجہ سے بہت گھمنڈی تھا ۔
اس نے ایک دن عمیرا کو کہا کہ مجھ سے دوستی کر لو اور عمیرا اس کی بات کا بنا جواب دئیے آگے چلی گئی اور یوں احمد کو اس بات پر بہت غصہ آیا ۔
کیونکہ کلاس میں کسی بچے کی ہمت نہ تھی کہ وہ احمد کی بات کو رد کرئے یا اسے کچھ کہے۔احمد جو اس کے دوست احمد دیکھ لو عمیرا نے تمہاری بات رد کردی ۔ جس پر احمد اپنوں دوسروں سے کہتاہے لگی شرائط میں اس لڑکی سے دوستی کرکے اس سے محبت کا جھوٹا ناٹک کروں گا۔ دیکھنا یہ لڑکی کیسے میرے آگے پیچھے گھومے گی۔ اگلے دن احمد دوبارہ عمیرا مجھ سے دوستی کر لو وہ دوبارہ بنا جواب دئیے چلی گئی ۔ کچھ دنوں تک ایسے ہی احمد اسے کہتا اور وہ بنا جواب دئیے چلی جاتی ۔ایک دن جب وہ جواب دئیے بنا گئی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا ۔ اور کہا کہ میری بات کا جواب دو۔ اور وہ اس ایسے ڈار اور سہم گئ۔
اور جب احمد نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو ایسے آنسوؤں سے بھری ہوئی ۔
نہ جانے احمد کو ایسا کیا ہوا کہ اس کا ہاتھ چھوڑ کا خود ادھر سے چلا گیا ۔ اور گھر جاکر وہ شدید بخارا میں مبتلا ہوگیا ۔اور کئی دن تک وہ کالج نہیں گیا ۔ اور پھر جب وہ دوبارہ گیا تو اس نے عمیرا کو دوبارہ دوستی کے لیے کہا جس پر وہ دوبارہ جواب دئیے بغیر چلی گئی ۔ اور یوں ہی کچھ دن تک ایسے رہا پھر اس نے روک لیا ۔اور کہا کہ عمیرا تم میری بات کیوں نہیں سنتی وہ خاموش اس کی باتیں سنتی رہی اور پھر چلی گئی۔ احمد عمیرا کہ اس روئیے سے بے حد پریشان ہو گیا تھا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر وقت عمیرا کا سوچنے لگا اور یوں اس کی بے سکونی اور بے چینی بڑھتی چلی احمد ہر طور طریقہ استعمال کر چکا تھا ۔ اس کے باوجود عمیرا اس کی کوئی بات نہ تو سنتی اگر سن لیتی تو جواب نہ دیتی ۔ عمیرا خود بہت پریشان ہوگئ تھی اس نے تنگ آکر احمد کی بات سنے کا سوچ ہی لیا ۔احمد نے جب اگلے دن اسے روکا تو اس نے کہا احمد تم کیا چاہتے ہو کیوں پڑے ہو میرے پیچھے اس پر احمد نے کہا مجھ سے دوستی کر لو جس پر عمیرا نے کہا تمہیں شرم نہیں آئی ایسی بات کرتے ہوئے ۔ تو جواب میں احمد نے کہا کیسی کیسی شرم یہ تو آج کل بہت عام ہے جس پر عمیرا نے کہا تمہارے لیے ہوگا میرے لیے نہیں اب مجھے روکنا مت خدا خافظ ۔اور عمیرا چلی گئی ۔
اگلے دن احمد نے عمیرا کو نہیں روکا مگر وہ عمیرا کا پیچھا کرتے کرتے اس کے گھر تک جا پہنچا ۔ اس نے روزانہ صبح شام عمیرا کے گھر کہ سامنے کھڑا ہونا شروع کر دیا ۔
کہ عمیرا کو ایک جھلک دیکھ سکے ۔ مگر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی عمیرا کو نہ دیکھ سکا اس کہ دل میں عمیرا کو دیکھنے کی خواہش بڑھتی چلی گئی ۔ مگر عمیرا اس کی طرف نظریں اٹھا کر نہ دیکھتی تھی ۔ ایک دن جب احمد کی بے سکونی بہت بڑھ گئی تو وہ رات کے پچھلے پہل اس کہ گھر میں چلا گیا ۔ جہاں اس نے عمیرا کو دیکھا جو کہ جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اس منظر نے اور عمیرا کہ حسن کی جھلک نے احمد کو اپنا دیوانہ کر لیا ہو جیسے وہ ایک پل کیلئے جیسے گم سا ہو گیا ہو ۔ پھر وہ ادھر سے گھر آگیا اور ساری رات سوچتا رہا اسی منظر کو ۔اور وہ شدید بخارا میں مبتلا ہوگیا کئی روز تک بیماری کی وجہ سے وہ کالج نہ گیا ۔ اور ہر وقت وہ عمیرا عمیرا کرتا رہتا تھا ۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت کرنے لگا تھا ۔جہاں ہزاروں لڑکیاں احمد کی دیوانی تھی ۔ احمد کا دل ایک عمیرا پر آ کر اٹک گیا ۔ یوں ہی دن گزار گئے احمد ٹھیک ہو کر کالج گیا تو عمیرا کو آتا دیکھا تو اسے روک لیا اور کہا مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔
میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں ۔جس پر عمیرا نے کہا تو جانتے بھی ہو محبت کا مطلب کیا ۔ تم جیسے لڑکے بس لڑکیوں کیساتھ وقت گزارتے ہیں ۔
اور نہ ہی تم میں کوئی دین و دنیا کی بات ہے نماز تو تم پڑھتے ہوہی نہیں ۔ جس پر احمد کا سر شرم سے جھک گیا ۔ وہ نماز تو تب پڑھتا نہ جب اسے آتی ہوتی جب اسے آتی نہیں تو کیسے پڑھتا وہ نماز ۔ گھر جاکر وہ محلے کی مسجد میں گیا اور کہا مولوی صاحب مجھے نماز نہیں آتی مجھے نماز سیکھا دیں میں بہت بے سکون رہتا ہوں مولوی صاحب ۔
جس پر مولوی صاحب نے ہنس کر کہا بیٹا میں تمہیں سیکھا دوں گا نماز مگر بیٹا نماز بھی تب ہی آئے گئی نہ جب تمہارا دل اجازات دے گا تو اس پر احمد نے نماز پڑھنی شروع کر دی۔
یوں عمیرا کی محبت نے اسے اس قدر بدل دیا وہ انسان جو کبھی نماز تک نہ پڑھتا تھا اب خدا کہ آگے سجدہ ریز ہونے لگا۔ یوں ہی دن گزار گئے احمد نے درس لینے شروع کر دیئے نمازیں پڑھی اور پھر جب کئی روز بعد گیا کالج تو پھر عمیرا کو روک لیا یوں اب عمیرا اسے دیکھ کر خوش تو ہوئی مگر اسے ڈانٹ کر چلی گئی کہ تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ میرا راستہ نہ روکا کرو کیوں نہیں سمجھ آتی تمہیں میری بات وہ نادم شرمندہ چلا آیا اور پھر کچھ دن تک کالج نہ گیا عمیرا اس ہر روز ادھر ادھر دیکھتی مگر وہ نظر نہ آیا۔ چند روزے ایسے ہی گزار گئے اور اب عمیرا بھی احمد کا سوچنے لگی تھی ۔وہ پریشان ہو گئ کافی دن تک احمد کو کالج آتا نہ دیکھ کر جب کئی روز بعد احمد آیا تو عمیرا نے خود اسے گزارتے ہوا دیکھا اور کہا کہ مجھ سے دوستی کرو گئے احمد جس پر احمد مارے خوشی کہ اسے کوئی جواب نہ دے سکا اور بس وہیں خاموش کھڑا رہا ۔ یوں دونوں کی دوستی ہوگئی ۔ احمد جو کہ پڑھتا بھی۔ ہ تھا اب عمیرا کیساتھ پڑھائی کرنے کی وجہ سے اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا یوں وقت گزار گیا اور کالج کی پڑھائی ختم ہونے کو آئی ۔ کل صبح ایک فنکشن تھا جس کہ بعد کالج ختم ہو جانا تھا ۔ احمد نے عمیرا سے کہا کہ مجھے تم سے آج کچھ بات کرنی ہے کل ہمارا ایسے بھی آخری دن ہے عمیرا کہتی ہے ہاں کہاں نہ تو احمد کہتا ہے عمیرا بات یہ ہے نہ کہ عمیرا کہتی ہے کیا بات ہے بتا بھی دو تو احمد کہتاہے میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ جس پر عمیرا ایک دم خاموش ہو جاتی ہے وہ بھی دل ہی دل میں یہ بات لیے بیٹھی تھی مگر اس نے جان بوجھ کر احمد کو کہا تم جانتے بھی ہو محبت کا مطلب کیا ہے محبت کیا کبھی تم نے محبت کی بھی ہے احمد ہاں تم سے کی ہے نہ جس پر عمیرا اسے جان بوجھ کر باتیں سنا کر اور یہ کہہ کر چلی جاتی ہے کہ کیا تمہیں واقع مجھ سے کبھی محبت ہوئی ہے ۔اور وہ چلی جاتی ہے اور احمد بہت روتا ہے وہ کل فنکشن پر نہیں آنا چاہتا پھر بھی آجاتا ہے اور عمیرا اسے کال کرکے کہتی ہے تم ضرور آو گے مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔ مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔
عمیرا گھر سے نکلی کہ احمد کو آج بتا دے گئی کہ اسے محبت کرتی ہے مگر وہ کیا جانتی تھی قسمت کو کیا منظور تھا۔
وہ گھر سے نکلی مگر راستے میں ایک کار خادثے میں جان گوا بیٹھی اور ادھر احمد انتظار کر رہا تھا اور جب اس نے یہ خبر سنی وہ جیتے جیتے مر گیا ۔ مگر اس کہ دل میں یہ بات تھی کہا عمیرا کو مجھ سے محبت تھی ۔وہ گیا عمیرا کہ آخری سفر میں ایک ذندہ لاش کی طرح نماز جنازہ پڑھی اور آکر اس کی قبر پر بیٹھ کر دن رات روتا رہتا ۔ اب احمد کہ گھر والے بھی بہت پریشان تھے کیونکہ ڈاکٹر کا کہنا تھا یہ اپنے ہواس میں نہیں ہے اور اس کا یوں رونا اس کی جان لے سکتا ہے وہ ہر وقت کہتا رہتا مجھے بھی محبت ہوئی تھی مجھے بھی محبت ہوئی تھی ۔اور چھ ماہ بعد وہ ایک گاڑی سے ٹکرا کر جان کی بازی ہار گیا اور آخری بار بھی یہی کہتا رہا مجھے بھی محبت ہوئی تھی ۔
ازقلم: (انو رائٹس)
Thanks